Popular Posts

This is default featured slide 1 title

https://gulshanurdu.blogspot.com/2017/08/predictions-by-sayd-qamer-ahmad-free.html

https://gulshanurdu.blogspot.com/2017/08/blog-post_6.html

This is default featured slide 3 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 4 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 5 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

Friday 15 July 2022

دنیا میں سزائے موت دینے کے مختلف طریقے​

مختلف ادوار اور ممالک میں مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے طریقے مختلف ہیں۔ 

موت کی سزا بیشتر ممالک میں سنگین جرائم کرنے والوں کے لیے سب سے بڑی سزا ہے جس کا اختتام سزا پر عمل درآمد کی صورت میں ہوتا ہے۔ سزائے موت کو
(Capital Punishment) بھی کہا جاتا ہے اور یہ اصطلاح لاطینی زبان کے لفظ capitalis سے نکلی ہے، جس کا مفہوم ’’سر قلم کرنا ‘‘ ہے۔

اِس وقت دنیا کے 58 ملکوں میں سزائے موت کے قانون پر عمل درآمد ہو رہا ہے اور 98 ملکوں نے مجرموں کو سزائے موت نہ دینے کی پالیسی اختیار کی ہوئی ہے تاہم وہاں سنگین جرائم میں ملوث افراد کو دیگر سخت ترین سزائیں دی جاتی ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ ممالک ایسے ہیں جہاں سزائے موت صرف انتہائی سنگین جرم کے ارتکاب پر ہی دی جاتی ہے اوردنیا کے 35 ملک ایسے ہیں جنہوں نے سزائے موت پر عمل درآمد 10 سال یا اس سے زاید عرصے کے لیے روک دیا ہے ۔ اس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں سزائے موت دینے کے مختلف طریقے رائج ہیں جن میں سے چند قارئین کی دلچسپی کے لیئے یہاں پیش کیئے جا رہے ہیں۔

* پھانسی:
پاکستان میں مجرم کو سزائے موت دینے کا ایک ہی طریقہ رائج ہے کہ مجرم کو تختہ دار پر لٹکا دیا جائے یعنی اُسے پھانسی دے دی جائے۔ رحم کی اپیلیں مسترد ہو جانے کے بعد مجرم کو آگاہ کر دیا جاتا ہے کہ اُسے پھانسی دی جا رہی ہے۔ پھانسی دینے کے وقت سے تقریباً 48 گھنٹے قبل مجرم کی اُس کے اہل خانہ سے آخری ملاقات کرائی جاتی ہے، اُس کا طبی معائنہ ہوتا ہے اور اگر کوئی قیدی بیمار ہو تو اس کی سزائے موت پر عمل درآمد کچھ وقت کے لیے مؤخر کر دیا جاتا ہے۔ مجرم کو (اگر وہ مسلمان ہے تو)عبادت کرنے کے لیے جائے نماز، تسبیح ، قرآن شریف بھی فراہم کر دیا جاتا ہے، اسی طرح سزا پانے والے مجرم کا جو بھی مذہب ہے اس کے مطابق مجرم کو عبادت کے لوازمات فراہم کیے جاتے ہیں۔ پھانسی سے قبل قیدی کی آخری خواہش بھی پوچھی جاتی ہے اور جیل حکام کوشش کرتے ہیں کہ پھانسی پر لٹکانے سے قبل قیدی کی اُس آخری خواہش کو کسی نہ کسی صورت پورا کیا جائے۔ پھر قیدی کے چہرے پر غلاف چڑھا دیا جاتا ہے، رسی پر مکھن یا کوئی تیل وغیرہ بھی لگایا جاتا ہے تاکہ رسی نرم رہے۔ جلاد کی جانب سے لیور کھینچنے کے بعد دَم نکلنے تک اسے لٹکا رہنے دیا جاتا ہے اور ڈاکٹر قیدی کی نبض چیک کر کے اس کی موت کی تصدیق کرتا ہے۔ پاکستان کے علاوہ سزائے موت کا یہ طریقہ افغانستان، کیوبا، مصر، ایران، انڈونیشیا اور ہندوستان سمیت کئی ممالک میں اپنایا گیا ہے۔

* گولی مارنا:
مجرموں کو سزائے موت دینے کے لیے گولی مارنے کا طریقہ بھی رائج ہے، اگر مجرم ایک سے زائد ہوں تو انہیں فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ پھر اشارہ ملتے ہی گولیاں برسنا شروع ہو جاتی ہیں۔ سزائے موت کا یہ طریقہ متعدد ممالک میں اپنایا جاتا ہے جن میں امریکا کی مختلف ریاستیں، چین، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، بیلاروس، جنوبی کوریا، تائیوان اور جنوبی افریقہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ فائرنگ اسکواڈ کو استعمال کرنے کا طریقہ اکثر ممالک میں مختلف ہوتا ہے تاہم عام طور پر قیدی کی آنکھوں پر سیاہ پٹی اور ہاتھ پیر رسی سے باندھ کر کھڑا کر دیا جاتا ہے اوراس کے بعد کئی افراد پر مشتمل اسکواڈ قیدی پر فائرنگ کرتا ہے۔

* سر قلم کرنا:
سعودی عرب واحد ملک ہے جہاں سزائے موت کے لیے سر قلم کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے، اس کے لیے ایک تیز دھار تلوار کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ویسے یہ طریقہ کار بہت پرانا ہے اور قدیم روم اور یونان میں بھی ایسے طریقے پر عمل کیا جاتا تھا۔

بجلی کے جھٹکے:
امریکا کی بعض ریاستوں میں سزائے موت کے لیئے بجلی کی کرسیاں استعمال کی جاتی ہیں، اس طریقے میں قیدی کو کرسی پر دھاتی پٹیوں سے باندھ دیا جاتا ہے جبکہ ایک گیلا اسفنج اس کے سر پر رکھ دیا جاتا ہے جس کے بعد عام طور پر پہلے 2 ہزار والٹ بجلی کو پندرہ سیکنڈ تک کرسی پر چھوڑا جاتا ہے جس سے قیدی بے ہوش اور دل کام کرنا چھوڑ دیتا ہے جبکہ اکثر دوسری بار بھی کرنٹ چھوڑا جاتا ہے جو اندرونی اعضاء کو نقصان پہنچاتا ہے۔
* زہریلا انجکشن :
بعض ممالک میں قیدیوں کو زہریلا انجکشن لگا کر بھی سزائے موت دی جاتی ہے جن میں امریکی ریاستیں، چین، گوئٹے مالا، تھائی لینڈ، فلپائن اور ویتنام شامل ہیں۔ اس طریقے میں مجرم کے ہاتھ اور پیر ایک شکنجے میں کس دیئے جاتے ہیں جس کے بعد اسے زہریلا انجیکشن دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ اس کے دل کی دھڑکن بند ہو جاتی ہے۔

سزائے موت کے درج بالا طریقوں کے علاوہ بھی حکومتوں نے مجرموں کے موت کے گھاٹ اتارنے کے بہت سے طریقے اختیار کیے ہیں۔ان کے علاوہ صدیوں پہلے مجرموں کو موت کی سزا دینے کے انہتائی وحشیانہ طریقے استعمال کیے جاتے تھے یہ طریقے اب اگرچہ متروک ہو چکے ہیں جن میں سے چند یہاں بیان کیئے جا رہے ہیں۔

سنگساری:
سعودی عرب، ماریطانیہ ، یمن، ایران اور پاکستان میں بد کاری میں ملوث افراد کے لئیے یہ سزا موجود رہی ہے تاہم اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ کہانیوں اور قصوں میں پڑھا اور کچھ ممالک کی تاریخ کے حوالے سے تمثیلی دستاویزی پروگراموں میں دیکھا گیا ہے کہ مجرم کو ایک میدان میں آدھے جسم تک گاڑھ دیا جاتا تھا۔ اس کے بعد چاروں طرف کھڑے لوگ اس پر سنگ باری کرتے تھے۔ چند پتھر لگنے کے بعد مجرم کی موت واقع ہو جاتی تھی۔ اگر زمین میں گاڑا نہ جائے تو ملزم کو کھلے میدان میں بٹھا دیا جاتا تھا اور پھر اس پر پتھر برسائے جاتے تھے۔
* کھال اتارنا:
اس طریقے سے مجرم کو موت تو ملتی ہے لیکن سے اس سے قبل بے پناہ اذیت کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جلاد یا سرکاری اہل کار، بادشاہ، حکم راں یا مسند اقتدار پر بیٹھے شخص کے حکم سے سزا یافتہ شخص کے جسم کی کھال تیز دھار چھری یا چاقو سے اتارتے تھے۔ یہ اذیت ناک مرحلہ مجرم کو موت سے پہلے کئی بار مارتا تھا اور آخرکار اس کی موت واقع ہو جاتی تھی۔ اس کیفیت میں اس خوف ناک سزا کے مراحل سے گزرنے والا فوری موت کی التجائیں کرتا تھا لیکن اسے موت سے پہلے اس اذیت ناک مرحلے سے گزرنا پڑتا تھا۔
اعضا کو کاٹنا:
اس طریقے میں مجرم کے جسم کے کچھ اعضا کو کاٹ لیا جاتا تھا، جس سے رفتہ رفتہ وہ ہلاک ہو جاتا تھا۔ عام طور پر اس طریقۂ کار کو اختیار کرتے وقت مجرم کے معدے کے قریب زخم لگائے جاتے تھے۔ یہ طریقہ صرف تشدد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا اور اس کے نتیجے میں قیدیوں کی اموات بھی ہوئیں۔
گرم پانی میں پھینکنا:
گرم کھولتے ہوئے پانی میں کسی کو بھی پھینکنے کا مطلب یہ ہے کہ سیکنڈوں میں اس کی موت واقع ہو گئی۔ مختلف ادوار میں حاکم وقت اپنے دشمنوں، مجرموں اور مخالفین کو مارنے کے لیے یہی طریقہ استعمال کرتے تھے۔ اس کے لیے پانی کو ایک بڑے برتن میں کھولایا جاتا تھا اور مجرم کو اس میں ڈال دیا جاتا تھا۔
بھاری پہیے کے ذریعے موت:
قدیم یونان میں یہ طریقہ رائج تھا جس نے آہستہ آہستہ جرمنی، فرانس، روس، برطانیہ اور سوئیڈن میں بھی مقبولیت حاصل کی۔ اس طریقے میں قیدی کو ایک بڑے پہیے سے باندھ دیا جاتا تھا۔ جب پہیا چلتا تھا تو آہستہ آہستہ اس شخص کی ہڈیاں ٹوٹنا شروع ہوجاتی تھیں اور پھر وہ مر جاتا تھا۔ اس کے علاوہ کبھی کبھی ملزم کو سر پر چوٹ لگا کر نیم بے ہوشی کی حالت میں پہیے سے باندھ کر کہیں لٹکا دیا جاتا تھا۔ اس طرح پرندے بالخصوص چیل، کوے اور گدھ زندہ انسان کی بوٹیاں نوچنا شروع کر دیتے تھے جس سے اس کی موت واقع ہو جاتی تھی۔
* زندہ جلا دینا:
مجرموں کو زندہ جلانا بھی سزائے موت کا ایک انداز رہا ہے۔ جن حاکموں نے یہ طریقہ اختیار کیا، اُن کی منطق یہ تھی کہ اس طرح دوسرے لوگوں پر بھی خوف طاری ہو گا اور وہ عبرت حاصل کریں گے۔
* نیک لیسنگ :
اس طریقے میں ملزم یا مجرم کی گردن اور بازوؤں پر ایک ربڑ کا ٹائر چڑھا دیا جاتا تھا جو گیس سے بھرا ہوا ہوتا تھا۔ پھر اسے آگ لگا دی جاتی تھی۔ یہ طریقہ جنوبی افریقہ میں 1980 تا 1990 کے دوران کافی استعمال کیا گیا۔ ڈاکوؤں، چوروں یا جرائم پیشہ عناصر کو عام شہریوں نے بھی اپنی عوامی عدالتوں کے ذریعے متعدد بار Necklacing کے ذریعے سزائے موت دی۔
* کیڑوں کے ذریعے موت:
اس خوف ناک طریقے کو بھی سزائے موت دینے کے لیے حکمرانوں نے استعمال کیا۔ مجرم کو برہنہ کر کے چھوٹی کشتی یا درخت کے تنے میں باندھ دیا جاتا تھا۔ پھر اسے زبردستی شہد اور دودھ پلایا جاتا تھا، اس کے بعد کھانے پینے کی اشیا بھی اس کے بدن پر ڈالی جاتی تھیں، تاکہ کیڑے ان کی بو سے آئیں۔ پھر اسے باندھ کر کسی حوض یا ندی کے کنارے لٹکا دیا جاتا تھا۔ تاریخ میں موجود ہے کہ اس طریقے کو اختیار کرنے والے اپنے مجرم کی آنکھوں، کانوں، منہ اور دیگر اعضا کو خاص توجہ کا نشانہ بناتے تھے۔ کچھ ہی وقت گزرنے کے بعد حشرات الارض دودھ، شہد اور کھانے پینے کی دیگر اشیا کے ساتھ انسانی جسم بھی چٹ کر جاتے تھے۔
* آری کے ذریعے جسم چیر دینا:
اس دہشت ناک طریقے کے ذریعے تیز دھار آری سے مجرم کے جسم کو 2 حصوں میں کاٹ دیا جاتا تھا۔ یہ طریقہ رومن دور میں کافی رائج تھا۔ اسپین میں بھی اس کے شواہد ملتے ہیں جب کہ ایشیا کے بھی کچھ حصوں میں اس کے ذریعے سزائیں دی جاتی رہی ہیں۔ اس طریقے میں انسانی جسم کو افقی یا عمودی کاٹا جاتا تھا ، دیکھنے والے تو دہشت زدہ ہوتے ہی تھے لیکن یہ دردناک موت سہنے والا موت سے پہلے ہی مرجاتا تھا۔
ہاتھی کے پیروں تلے روندنا:
ہاتھی کے پیروں تلے روند کر مجرموں کو سزائے موت دینا بھی بادشاہوں کا شوق رہا ہے، مجرموں کو میدان میں باندھ کر لٹا دیا جاتا تھا اور پھر ہاتھی اپنا بھاری بھرکم پیر جیسے ہی اس کے اوپر رکھتا تھا تو سزا پانے والا منٹوں میں ہلاک ہو جا تا تھا۔ اس کے علاوہ سزایافتہ افراد کو بھوکے شیروں کے سامنے ڈال دینا بھی ایک ایسا عمل ہے جسے حکمرانوں نے تفریح طبع کے لیے بھی استعمال کیا اور اس سے اپنے مخالفین کو سزائیں بھی دیں۔ بھوکے جانوروں کے پنجرے میں جانے والوں میں سے قسمت والے ہی زندہ سلامت بچنے میں کام یاب ہوتے تھے لیکن ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔
Share:

Aur America Laraz Utha Novel By Tariq ismail sagar Pdf Urdu Book Free Download -Gulshan Urdu

Book Name=Aur America Laraz Utha

                                        writter Name=Tariq ismail sagar

Share:

Tuesday 10 October 2017

Peer-e-Kamil novel written by Umera Ahmad Download free pdf(gulshanurdu.blogspot.com)

Peer-e-Kamil 

Book Name:-Peer-e-Kamil
Novel written by Pakistani writer Umera Ahmad

Share:

Sunday 10 September 2017

Bhagora Novel By Riaz Aqib Kohlar Pdf Download Pdf Download free Gulshan urdu

Book Name=Bhagora Novel
Writter Name=Bhagora Novel
Share:

Dehshat Gard Novel By Tariq Ismail Sagar Pdf free download

Dehshat Gard Novel By Tariq Ismail Sagar Free download 

Book Name:

Dehshat Gard NovelDehshat Gard Novel

Written by:Tariq Ismail Sagar
Share:

Saturday 9 September 2017

Commando Novel By Tariq Ismail Sagar free download pdf

Commando Novel ByTariq Ismail Sagar

Book Name:

Commando Novel 

Written By:Tariq Ismail Sagar
Share:

Watan Ki Metti Gawah Rehna Novel Tariq Ismail Sagar Pdf Free downlode

Book Name:Watan Ki Metti Gawah Rehna
written by:Tariq Ismail Sagar
Share:

Friday 25 August 2017

وہ دس عادتیں جن کو اپنا کر آپ بھی امیر بن سکتے ہیں








کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کی موجودہ اور آنے والی دولتکا انحصار چند بہت ہی بنیادی اور بظاہر غیر اہم عادات پر ہوتا ہے جی ہاں، اپنی روز مرہ کی ذاتی اور پیشہ ورانہ مصروفیا ت سے کچھ وقت نکال کر اگر ان دس عادات کو معمول بنا لیا جائے تو مستقبل قریب میں آپ کا شمار دنیا کے امیر ترین افراد میں ہوگا، گھبرائیے نہیں یہ کوئی “ایسی ویسی” عادات نہیں ہیں بلکہ یہ عادات انتہائی مثبت اور مفید ہیں ایسی روش اختیار کرنے سے آپ کی پیشہ ورانہ مہارت میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوگا، دنیا کے امیر ترین افراد کے معمولات زندگی پر کی جانے والی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ مندرجہ ذیل 10 عادات ایسی ہیں جو اگر آپ بھی اپنا لیں تو آپ کی جیبیں نوٹوں سے بھری رہیں گی۔
سننے کی مشق؛ جس طرح اچھا بولنا ایک ہنر ہے اس طرح مسلسل توجہ کو مرکوز کر کے سننا بھی ایک اہم اور منفرد ہنرسمجھا جاتا ہے ، لوگ آپ سے کیا چاہتے ہیں اس کو ٹھیک ٹھیک سننا اور سمجھنا بھی ان عادات میں سے ایک ہے، مثال کے طور پر اگر آپ نیا کاروبار شروع کرنے جا رہے ہیں تو کم بولنا اور زیادہ سننا آپ کے لیے کامیابی کی کنجی بن سکتا ہے، اپنی سننے اور سمجھنے کی اہلیت کو بہتر بنا کر آپ دوسرے لوگوں سے سیکھنے اور اپنے اطراف موجود لوگوں کی مدد کرنے کے قابل بھی ہو جائیں گے۔
صحت پر سمجھوتہ نہ کریں؛ ہلکی پھلکی ورزش اور صحت بخش غذا یہ دونوں چیزیں بھی کامیابی اور ایک خوشحال طرز زندگی کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہیں، 24 گھنٹوں میں سے 30 منٹ جسم اور صحت کےلیے وقف کردیں، وہ کہتے ہیں نا احتیاط افسوس سے بہتر ہے،ظاہر ہے اگر آپ صحت مند رہیں گےتوآپ کا پیسہ ڈاکٹر کی جیب میں جانے کے بجائے آپ کے پاس ہی رہے گا۔
لوگو ں سے میل جول بڑھائیے؛ مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں سے میل جول کی عادت اپنائیں اور کسی بھی میدان میں ان کی مدد کرنے سے گریز نہ کریں، اس کا سب سے بڑا فائدہ باہر کی دنیا سے آپ کا تعارف ہوگا یعنی مفت کی مشہوری لوگوں کے ذہنوں میں آپ کا نام اور کام محفوظ رکھے گی جو کہ یقینا ایک اچھی سرمایہ کاری ہے۔
ٹی وی کم سے کم دیکھیں؛ ایک تحقیق کے مطابق دنیا کے کامیاب ترین افراد ایک گھنٹے سے زیادہ ٹی وی دیکھنےسے گریز کرتے ہیں، اور کچھ تو بالکل بھی نہیں دیکھتے کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ جو وقت وہ اس ڈبے کے سامنے ضایع کریں گےاس وقت میں وہ کچھ منافع بخش کر سکتے ہیں۔
مطالعے کی عادت اپنائیے؛ امریکا کےتینتیسوں صدر ، ہیری ٹرومین کا مشہور قول ہے کہ ضروری نہیں کہ ہر مطالعہ کرنے والا لیڈر ہو لیکن ہر لیڈر مطالعہ ضرور کرتا ہے، پورے دن میں صرف 30 منٹ مطالعے کے لئے نکالیے اورضروری نہیں کہ آپ مشکل ادب کا مطالعہ کریں بلکہ آپ پروفیشنل کیرئیر جیسے موضوع پر ہلکی پھلکی کتابیں بھی پڑھ سکتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ نیوز ویب سائیٹس سے بھی اپنے آپ کوباخبر رکھئے ۔
ٹیلنٹ میں اضافہ یقینی مستقبل کی ضمانت؛ اپنے خوابوں کی تعبیر نوٹوں کی صورت میں پانے کا بہترین طریقہ اپنے ٹیلنٹ میں اضافہ کرنا ہے، اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ بتدریج اپنی ملازمت میں ترقی کریں اور اچھی تنخواہ پائیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنی صلاحیتوں کو وقت اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے اپ گریڈ کرتے رہیں۔
مثبت سوچیں ، دولت مند بنیں؛ آپ جیسا سوچتے ہیں وقت ویسا ہی کرتا ہے اب یہ آپ پر ہے کہ آپ مثبت سوچیں یا منفی، یہی نہیں بلکہ مثبت سوچنے کو اپنی عادت نہ بنائیں بلکہ اسے طرز زندگی کے طور پر اختیار کریں ، اگر آپ اپنے معمولات سے منفی سوچوں اور ذہنی صلاحیتوں کو محدود کرنے والے عوامل کا خاتمہ کردیں تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کتنی تیزی سے ترقی کی بلندی کو چھو لیتے ہیں،گرم جوش اور دوستانہ رویہ اپنائیں اور اپنی ترقی سے متعلق ہر نئے موقع کو خوش آمدید کہیں ۔
بچت کیجئے؛ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ پیسا بچانے کی صلاحیت کا ہونا آپ کوامیر بنانے میں کافی مددگار ثابت ہوتا ہے وارن بفٹ نامی مشہور بزنس مین جس کے کل اثاثو ں کی قیمت 72 ارب ڈالر ہےوہ کہتا ہے “Do not save what is left from after spending, but spend what is left after saving.” بچت کے موضوع پر اس سے زیادہ جامع قول کیا ہو سکتا ہے اس لیے اپنے غیر ضروری خرچے کم کیجئےاورجتنا ہو سکے پیسے بچائیے لیکن کنجوسی کے ساتھ نہیں کفایت شعاری کے ساتھ یہ عادت دیکھتے ہی دیکھتے آپ کو بہت ہی جلد امیروں کی صف میں لا کھڑا کرے گی۔
ہم خیال لوگوں کا ساتھ اپنائیے۔ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ آپ کو سمجھ نہیں پاتے وہ آپ کی صلاحیتوں کا اعتراف کرنے مِیں بخل سے کام لیتے ہیں اور ایسے لوگوں کی آپ کے اطراف موجودگی ذہنی دباؤ اور فرسٹریشن کا باعث بنتی ہے، اس کے بر عکس آپ اگر ایسے لوگوں میں اٹھیں بیٹھیں جو آپ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوں اور آُپ کے فن کے معترف بھی ہوں تو ایسے ماحول میں آپ کی ذہنی صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں اور آپ بہت کم وقت میں کامیابی کی بلندیوں کو چھونے لگتے ہیں

روزمرہ کے اہداف طے کریں؛ یاد رکھئیے صرف طویل المد تی منصوبے بنانا کافی نہیں، آپ کو ضرورت ہے مختصر اور روزمرہ کے اہداف کی ، دن کے اختتام پر اپنے اہداف پر نظر دوڑائیں کہ آپ نے کتنے کاموں کو مکمل کیا اور کن عوامل نےان اہداف کو پانے میں آپ کی مدد کی،کوشش کریں کہ آنے والے دن کے لیے بھی اپنے کاموں کی پیشگی فہرست بنا لیں۔

Share:

Thursday 10 August 2017

Wapsi Complete pdf urdu Novel By Mohiuddin Nawab download free

Wapsi Complete pdf urdu Novel  By Mohiuddin Nawab download free from(Gulshanurdu.blogspot.com)

Book Name-Wapsi
Writer Name-Mohiuddin Nawab
Share:

Monday 7 August 2017

بھولتے کو گوگل کا سہارا

         
 بھولتے کو گوگل کا سہارا

یوں تو ہم ٹیکنالوجی کو رحمت ہی سمجھتے ہیں ۔ لیکن کبھی کبھی گمان ہوتا ہے کہ یہ ہمیں ناکارہ کرنے کے لئے ہی بنائی گئی ہے۔
جب سے ہم ایم ایس ورڈ پر لکھنے لگے ہیں تب سے ہاتھ سے لکھنا اتنا مشکل لگتا ہے کہ پوچھیں مت۔ پھر نہ لکھنےکی وجہ سے تحریر بھی کافی سے زیادہ شکستہ ہوتی جا رہی ہے۔ سو جب کبھی ہماری تحریر لوگوں کے محدود ذہنوں میں سما نہیں پاتی تو ہم کھسیانے ہو کر کہتے ہیں ۔ خط لکھیں گے چاہے مطلب کچھ نہ ہو۔۔۔
پھر ایم ایس ورڈ نے اسپیلنگ چیک کی سہولت فراہم کی تو ہم نے اسپیلنگ پر توجہ کم سے کم کردی۔ بس مطلوبہ لفظ کی ملتی جلتی شکل فراہم کرتے
اور کہتے "بوجھو تو جانیں" اب چونکہ ٹیکنالوجی کی یہ سہولیات برسوں کی محنت سے وجود میں آئی ہیں تو ہمیشہ ہماری اس قسم کی حرکت کو ٹیکنالوجی کے وجود کے لئے خطرہ سمجھا جاتا اور حتی الامکان کوشش کرکے ہماری پہیلی بوجھ لی جاتی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ٹیکنالوجی کا ٹیکہ بیٹھ گیا اور ہمارا بھٹہ۔

کچھ عرصہ اور گزرا تو ہماری یادداشت کا ٹھیکہ گوگل نے سنبھال لیا ۔ ہم نے پھر "ایزی فیل " کیا اور نتیجتاً گوگل کے بغیر بات چیت کے گھوڑے دوڑانا ہمارے لئے دشوار ہو گیا۔ آج ہم فلک شیر بھائی سے خبرِ تحیرِ عشق سُن والی بے مثال غزل کا ذکر کر رہے تھے تو شاعرکا نام یاد نہیں آرہا تھا ۔ بس یہ یاد آیا کہ شاعر اورنگ آباد کے مقیم تھے اور اس بات کو اپنے نام کے ساتھ لکھنے میں فخر محسوس کیا کرتے تھے۔ پھر گئے گوگل پر اور اُسے لفظ "اورنگ آبادی" کا چارہ ڈالا ۔ گوگل بھیا جھٹ کہنے لگے "سراج اورنگ آبادی؟" ۔ بس پھر کیا تھا گوگل بھیا کو وہیں چھوڑا اور اُلٹے قدم
محفل پہنچے تاکہ جملہ مکمل کرکے فلک شیر بھائی کو روانہ کر سکیں۔

ٹیکنالوجی اگر واقعی رحمت ہے تو ہم دن بہ دن ناکارہ کیوں ہوتے جار ہے ہیں؟  یہ  ہماری سمجھ نہیں آتا۔ اللہ ہمارے حال پر رحم کرے۔ آپ بھی  
  دعا کیجے گا۔

Share:

Blog Archive

Definition List

Flag Counter

Unordered List

Support

Flag Counter