This is default featured slide 1 title
https://gulshanurdu.blogspot.com/2017/08/predictions-by-sayd-qamer-ahmad-free.html
This is default featured slide 3 title
Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.
This is default featured slide 4 title
Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.
This is default featured slide 5 title
Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.
Friday 25 August 2017
وہ دس عادتیں جن کو اپنا کر آپ بھی امیر بن سکتے ہیں
کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کی موجودہ اور آنے والی دولتکا انحصار چند بہت ہی بنیادی اور بظاہر غیر اہم عادات پر ہوتا ہے جی ہاں، اپنی روز مرہ کی ذاتی اور پیشہ ورانہ مصروفیا ت سے کچھ وقت نکال کر اگر ان دس عادات کو معمول بنا لیا جائے تو مستقبل قریب میں آپ کا شمار دنیا کے امیر ترین افراد میں ہوگا، گھبرائیے نہیں یہ کوئی “ایسی ویسی” عادات نہیں ہیں بلکہ یہ عادات انتہائی مثبت اور مفید ہیں ایسی روش اختیار کرنے سے آپ کی پیشہ ورانہ مہارت میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوگا، دنیا کے امیر ترین افراد کے معمولات زندگی پر کی جانے والی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ مندرجہ ذیل 10 عادات ایسی ہیں جو اگر آپ بھی اپنا لیں تو آپ کی جیبیں نوٹوں سے بھری رہیں گی۔
Thursday 10 August 2017
Monday 7 August 2017
بھولتے کو گوگل کا سہارا
یوں تو ہم ٹیکنالوجی کو رحمت ہی سمجھتے ہیں ۔ لیکن کبھی کبھی گمان ہوتا ہے کہ یہ ہمیں ناکارہ کرنے کے لئے ہی بنائی گئی ہے۔
جب سے ہم ایم ایس ورڈ پر لکھنے لگے ہیں تب سے ہاتھ سے لکھنا اتنا مشکل لگتا ہے کہ پوچھیں مت۔ پھر نہ لکھنےکی وجہ سے تحریر بھی کافی سے زیادہ شکستہ ہوتی جا رہی ہے۔ سو جب کبھی ہماری تحریر لوگوں کے محدود ذہنوں میں سما نہیں پاتی تو ہم کھسیانے ہو کر کہتے ہیں ۔ خط لکھیں گے چاہے مطلب کچھ نہ ہو۔۔۔
پھر ایم ایس ورڈ نے اسپیلنگ چیک کی سہولت فراہم کی تو ہم نے اسپیلنگ پر توجہ کم سے کم کردی۔ بس مطلوبہ لفظ کی ملتی جلتی شکل فراہم کرتے
اور کہتے "بوجھو تو جانیں" اب چونکہ ٹیکنالوجی کی یہ سہولیات برسوں کی محنت سے وجود میں آئی ہیں تو ہمیشہ ہماری اس قسم کی حرکت کو ٹیکنالوجی کے وجود کے لئے خطرہ سمجھا جاتا اور حتی الامکان کوشش کرکے ہماری پہیلی بوجھ لی جاتی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ٹیکنالوجی کا ٹیکہ بیٹھ گیا اور ہمارا بھٹہ۔
کچھ عرصہ اور گزرا تو ہماری یادداشت کا ٹھیکہ گوگل نے سنبھال لیا ۔ ہم نے پھر "ایزی فیل " کیا اور نتیجتاً گوگل کے بغیر بات چیت کے گھوڑے دوڑانا ہمارے لئے دشوار ہو گیا۔ آج ہم فلک شیر بھائی سے خبرِ تحیرِ عشق سُن والی بے مثال غزل کا ذکر کر رہے تھے تو شاعرکا نام یاد نہیں آرہا تھا ۔ بس یہ یاد آیا کہ شاعر اورنگ آباد کے مقیم تھے اور اس بات کو اپنے نام کے ساتھ لکھنے میں فخر محسوس کیا کرتے تھے۔ پھر گئے گوگل پر اور اُسے لفظ "اورنگ آبادی" کا چارہ ڈالا ۔ گوگل بھیا جھٹ کہنے لگے "سراج اورنگ آبادی؟" ۔ بس پھر کیا تھا گوگل بھیا کو وہیں چھوڑا اور اُلٹے قدم
محفل پہنچے تاکہ جملہ مکمل کرکے فلک شیر بھائی کو روانہ کر سکیں۔
ٹیکنالوجی اگر واقعی رحمت ہے تو ہم دن بہ دن ناکارہ کیوں ہوتے جار ہے ہیں؟ یہ ہماری سمجھ نہیں آتا۔ اللہ ہمارے حال پر رحم کرے۔ آپ بھی
دعا کیجے گا۔
Sunday 6 August 2017
مطالعے کی عادت،کس طرح اپنائی جائے؟
مطالعہ، انسان کی سوچ اور فکر کو وسعت دیتا ہے نظر کو گہرائی عطا کرتا ہے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو جلا بخشتا ہے، لیکن یہاں شرط یہ ہے کہ مطالعہ
ایسی تحریروں کا کیا جائے جو واقعی دل و دماغ پر مثبت اثر ڈالیں اور شخصیت کو نکھارنے میں مدد دیں،اب یہاں کئی سوال پیدا ہوسکتے ہیں مثلا اگر واقعی مطالعہ اتنے فوائد کا حامل ہے تو ہر شخص اس عادت کو اپنا کیوں نہیں لیتا اور زیادہ تر لوگ عموما فارغ وقت میں پڑھنے کے بجائے ٹی وی یا فلم دیکھنے یا پھر سونے کو ترجیح کیوں دیتے ہیں؟
دراصل مطالعہ کی عادت انسان کو گھر سے ملتی ہے اگر گھر بڑے بزرگ افراد مطالعے کا شوق رکھتے ہوں اور گھر میں کتابیں موجود ہوں تو بچے خود بہ خود اس طرف مائل ہونے لگتے ہیں۔ اس کے علاوہ والدین بچپن ہی سے اپنے بچوں کو نصابی کتب کے علاوہ دیگر دلچسپ اور معیاری کتابیں پڑھنے کی طرف راغب کرتے ہیں اور یوں بڑے ہونے تک ان کی عادت پختہ ہوچکی ہوتی ہے ، لیکن ہمارے یہاں زیادہ تر والدین نصاب کے علاوہ کتابیں پڑھنے کو وقت کا زیاں سمجھتے ہیں۔
حقیقتا یہی وہ وقت ہوتا ہے، جب کسی بھی فرد کو معیاری غیر نصابی کتب کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے، جس سے اسے نہ صرف ارد گرد کے ماحول سے آگہی ملتی ہے، بلکہ اس کی شخصیت میں نکھار اور سوچ میں پختگی پیدا ہونے لگتی ہے، اس کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس کا ذخیرہ الفاظ وسعت اختیار کرتا ہے چنانچہ ضروری ہے کہ اپنے آپ کو اس طرف راغب کیا جائے اور زبردستی ہی سہی،لیکن مطالعہ کا آغاز کیا جائے۔چاہے شروع میں ایک یا دو صفحے ہی پڑھیں لیکن پڑھنا شروع کریں اور اگر آپ کے بڑے منع کرتے ہیں تو انہیں بھی وہ کتاب پڑھنے کے لیے دیں اور قائل کرنے کی کوشش کریں کہ اس طرح کی کتابیں نقصان دہ نہیں بلکہ کسی حد تک مفید ہیں۔
اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح کی کتابیں پڑھی جائیں اور اچھی اور معیاری کتابوں کا تعین کیسے کیا جائے؟ تو اس کے لیے ضروری ہے کہ علمی وادبی حلقے میں رہنے کی کوشش کی جائے ایسے دوست بنائیں جو مطالعےسے شغف رکھتے ہوں،جو اساتذہ پڑھنے کا رجحان رکھتے ہوں، ان کی صحبت اختیار کی جائے،اس کے علاوہ خاندان کے جو افراد اس سلسلے میں مدد کرسکتے ہوں ، ان کی صحبت اختیار کی جائے،ان سے گفتگو کی جائے رفتہ رفتہ آپ خود بہ خود اس طرف مائل ہوجائیں گے اور آپ کو پڑھنے میں مزا آنے لگے اور آپ کا ذوق بھی اس کے مطابق بن جائے گا اور گھٹیا اور غیر معیاری ادب آپ کو پسند نہیں آئے گا اور آپ دونوں میں واضح تفریق کرسکیں گے،لیکن اگر آپ گھٹیا،فضول اور مقصدیت سے خالی ادب پڑھیں گے، تو پھر اچھی تحریریں بھی آپ کی سمجھ میں نہیں آئیں گی۔ برا اور غیر معیاری ادب وقتی طور پر تو لطف دیتا ہےلیکن اس سے دل و دماغ پر نہایت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور آپ کی سوچ محدود اور سطحی ہوکر رہ جاتی ہے۔ لہذا مطالعے کے لیے صرف صاف ستھری،بامقصد اور معیاری تحریریں منتخب کریں۔
اسی طرح اگر آپ شاعری میں دلچسپی رکھتے ہیں تب بھی صرف اچھے اور بڑے شاعروں کو پڑھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں۔ اکثر نوجوان صرف مخصوص اور سطحی قسم کے شاعری پڑھتے ہیں، چنانچہ وہی ان کی پسند بن جاتی ہے اور بڑے شاعروں کا کلام ان کے سر سے گزرجاتا ہے ۔ کیوں کہ وہ اس میں دلچسپی نہیں لیتے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے، ایسے مصنفین اور شاعروں کو پڑھنے کی کوشش کریں، جن کا شمار بڑے اور اچھے شاعروں نثر نگاروں میں ہوتا ہے۔
اب یہاں یہ مسئلہ سامنے آتا ہے کہ کتابیں کیسے حاصل کی جائیں، کیوں کہ کتابیں اور بالخصوص اچھی کتابیں مہنگی ہوتی ہیں، تو اس سلسلے میں اپنے کالج یا یونیورسٹی کی لائبریری سے استفادہ کریں، اپنے علاقے کی کسی لائبریری کی رکنیت حاصل کریں،اس کے علاوہ پرانی کتابوں کے مرکز سے بھی بہت اچھی اور نادر کتابیں مناسب قیمت پر مل جاتی ہیں۔اپنے جیب خرچ میں اس مقصد کے لیے پیسے جمع کرنا شروع کریں۔
یہ ضروری نہیں ہے کہ ابتدا ہی میں مشکل اور فلسفے سے بھر پور کتابیں پڑھی جائیں ابتداء میں اخبارات اور جرائد کا مطالعہ کریں۔ مضامین،فیچر، کالم پڑھیں ان کا تنقیدی جائزہ لیں اور اپنی رائے بنائیں کہ آپ کا اس بارے میں کیا نقطہ نظر ہے اور اس کے اس بارےکیا مشاہدات ہیں، اس کے بعد جب آپ میں پڑھنے کا رجحان پیدا ہوجائے گا تب ایک قدم آگے بڑھیں اور ہلکے پھلکے موضوعات پر طنزو مزاح پر مبنی کتابیں سفر نامے خود نوشت پڑھیں اور مستقل مزاجی سے پڑھنے کی کوشش کرتے رہیں، یہ بھی قطعی ضروری نہیں کہ آپ روزانہ ایک یا زائد گھنٹے اس پر صرف کریں تب ہی آپ عادی ہوسکیں گے۔ ابتداء میں ہفتے میں ایک یا دو مرتبہ یا روزانہ کے دو تین صفحات پڑھیں اورپھر آہستہ آہستہ دورانیہ اور صفحات بڑھاتے جائیں اور ایک وقت آئے گا کہ کوئی بھی اور کہیں بھی اچھی کتاب دیکھ کر آپ کا دل اسے پڑھنے کے لیے چاہےگا۔ اس کے علاوہ کسی بھی موضوع پر آپ کے پاس بہت سے دلائل اور نکات موجود ہوں گے اپنے دوستوں یا خاندان میں گفتگو کرتے کرتے آپ کو اس وقت یقینا بہت اچھا لگے گا،جب آپ کسی مصنف کی بات کا،کسی واقعے کا یاکسی کتاب کا حوالہ دیں گے اور آپ محسوس کریں گے کہ مطالعے نے آپ کی سوچ کو کس طرح متاثر کیا ہے لہذا کوشش کیجیے اور مطالعہ شروع کریں کہ عمل مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں۔
اس سلسلے میں والدین پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو خود اس طرف راغب کریں بلا شبہ کتابیں انسان کی شخصیت بنانے میں اہم کردار اداکرتی ہیں لہذا انہیں ڈانٹنے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کریں ان سے گفتگو کریں یہ جاننے کی کوشش کریں کہ انہیں کس طرح کے موضوعات پسند ہیں،وہ کیا جانناچاہتے ہیں،کیا پڑھنا چاہتے ہیں جس طرح کی معلومات انہیں مل رہی ہیں ،کیا وہ ان کے لیے کافی اور مناسب ہیں اور اس سے پہلے کہ وہ رہنمائی نہ ہونے کی بنا پر برے ادب کی طرف متوجہ ہوں یا چوری چھپے پڑھنا شروع کریں یا غیر صحت مندانہ سرگرمیوں میں دلچسپی لیا شروع کریں آپ خود انہیں معیاری اور مثبت ادب کی طرف لے کر آئیں اور کتاب کی صورت میں انہیں ایک اچھا دوست فراہم کریں،کچھ عرصے بعد
یقینا اس کے مثبت نتائج نظر آنے لگیں گے
ایسی تحریروں کا کیا جائے جو واقعی دل و دماغ پر مثبت اثر ڈالیں اور شخصیت کو نکھارنے میں مدد دیں،اب یہاں کئی سوال پیدا ہوسکتے ہیں مثلا اگر واقعی مطالعہ اتنے فوائد کا حامل ہے تو ہر شخص اس عادت کو اپنا کیوں نہیں لیتا اور زیادہ تر لوگ عموما فارغ وقت میں پڑھنے کے بجائے ٹی وی یا فلم دیکھنے یا پھر سونے کو ترجیح کیوں دیتے ہیں؟
دراصل مطالعہ کی عادت انسان کو گھر سے ملتی ہے اگر گھر بڑے بزرگ افراد مطالعے کا شوق رکھتے ہوں اور گھر میں کتابیں موجود ہوں تو بچے خود بہ خود اس طرف مائل ہونے لگتے ہیں۔ اس کے علاوہ والدین بچپن ہی سے اپنے بچوں کو نصابی کتب کے علاوہ دیگر دلچسپ اور معیاری کتابیں پڑھنے کی طرف راغب کرتے ہیں اور یوں بڑے ہونے تک ان کی عادت پختہ ہوچکی ہوتی ہے ، لیکن ہمارے یہاں زیادہ تر والدین نصاب کے علاوہ کتابیں پڑھنے کو وقت کا زیاں سمجھتے ہیں۔
حقیقتا یہی وہ وقت ہوتا ہے، جب کسی بھی فرد کو معیاری غیر نصابی کتب کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے، جس سے اسے نہ صرف ارد گرد کے ماحول سے آگہی ملتی ہے، بلکہ اس کی شخصیت میں نکھار اور سوچ میں پختگی پیدا ہونے لگتی ہے، اس کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس کا ذخیرہ الفاظ وسعت اختیار کرتا ہے چنانچہ ضروری ہے کہ اپنے آپ کو اس طرف راغب کیا جائے اور زبردستی ہی سہی،لیکن مطالعہ کا آغاز کیا جائے۔چاہے شروع میں ایک یا دو صفحے ہی پڑھیں لیکن پڑھنا شروع کریں اور اگر آپ کے بڑے منع کرتے ہیں تو انہیں بھی وہ کتاب پڑھنے کے لیے دیں اور قائل کرنے کی کوشش کریں کہ اس طرح کی کتابیں نقصان دہ نہیں بلکہ کسی حد تک مفید ہیں۔
اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح کی کتابیں پڑھی جائیں اور اچھی اور معیاری کتابوں کا تعین کیسے کیا جائے؟ تو اس کے لیے ضروری ہے کہ علمی وادبی حلقے میں رہنے کی کوشش کی جائے ایسے دوست بنائیں جو مطالعےسے شغف رکھتے ہوں،جو اساتذہ پڑھنے کا رجحان رکھتے ہوں، ان کی صحبت اختیار کی جائے،اس کے علاوہ خاندان کے جو افراد اس سلسلے میں مدد کرسکتے ہوں ، ان کی صحبت اختیار کی جائے،ان سے گفتگو کی جائے رفتہ رفتہ آپ خود بہ خود اس طرف مائل ہوجائیں گے اور آپ کو پڑھنے میں مزا آنے لگے اور آپ کا ذوق بھی اس کے مطابق بن جائے گا اور گھٹیا اور غیر معیاری ادب آپ کو پسند نہیں آئے گا اور آپ دونوں میں واضح تفریق کرسکیں گے،لیکن اگر آپ گھٹیا،فضول اور مقصدیت سے خالی ادب پڑھیں گے، تو پھر اچھی تحریریں بھی آپ کی سمجھ میں نہیں آئیں گی۔ برا اور غیر معیاری ادب وقتی طور پر تو لطف دیتا ہےلیکن اس سے دل و دماغ پر نہایت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور آپ کی سوچ محدود اور سطحی ہوکر رہ جاتی ہے۔ لہذا مطالعے کے لیے صرف صاف ستھری،بامقصد اور معیاری تحریریں منتخب کریں۔
اسی طرح اگر آپ شاعری میں دلچسپی رکھتے ہیں تب بھی صرف اچھے اور بڑے شاعروں کو پڑھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں۔ اکثر نوجوان صرف مخصوص اور سطحی قسم کے شاعری پڑھتے ہیں، چنانچہ وہی ان کی پسند بن جاتی ہے اور بڑے شاعروں کا کلام ان کے سر سے گزرجاتا ہے ۔ کیوں کہ وہ اس میں دلچسپی نہیں لیتے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے، ایسے مصنفین اور شاعروں کو پڑھنے کی کوشش کریں، جن کا شمار بڑے اور اچھے شاعروں نثر نگاروں میں ہوتا ہے۔
اب یہاں یہ مسئلہ سامنے آتا ہے کہ کتابیں کیسے حاصل کی جائیں، کیوں کہ کتابیں اور بالخصوص اچھی کتابیں مہنگی ہوتی ہیں، تو اس سلسلے میں اپنے کالج یا یونیورسٹی کی لائبریری سے استفادہ کریں، اپنے علاقے کی کسی لائبریری کی رکنیت حاصل کریں،اس کے علاوہ پرانی کتابوں کے مرکز سے بھی بہت اچھی اور نادر کتابیں مناسب قیمت پر مل جاتی ہیں۔اپنے جیب خرچ میں اس مقصد کے لیے پیسے جمع کرنا شروع کریں۔
یہ ضروری نہیں ہے کہ ابتدا ہی میں مشکل اور فلسفے سے بھر پور کتابیں پڑھی جائیں ابتداء میں اخبارات اور جرائد کا مطالعہ کریں۔ مضامین،فیچر، کالم پڑھیں ان کا تنقیدی جائزہ لیں اور اپنی رائے بنائیں کہ آپ کا اس بارے میں کیا نقطہ نظر ہے اور اس کے اس بارےکیا مشاہدات ہیں، اس کے بعد جب آپ میں پڑھنے کا رجحان پیدا ہوجائے گا تب ایک قدم آگے بڑھیں اور ہلکے پھلکے موضوعات پر طنزو مزاح پر مبنی کتابیں سفر نامے خود نوشت پڑھیں اور مستقل مزاجی سے پڑھنے کی کوشش کرتے رہیں، یہ بھی قطعی ضروری نہیں کہ آپ روزانہ ایک یا زائد گھنٹے اس پر صرف کریں تب ہی آپ عادی ہوسکیں گے۔ ابتداء میں ہفتے میں ایک یا دو مرتبہ یا روزانہ کے دو تین صفحات پڑھیں اورپھر آہستہ آہستہ دورانیہ اور صفحات بڑھاتے جائیں اور ایک وقت آئے گا کہ کوئی بھی اور کہیں بھی اچھی کتاب دیکھ کر آپ کا دل اسے پڑھنے کے لیے چاہےگا۔ اس کے علاوہ کسی بھی موضوع پر آپ کے پاس بہت سے دلائل اور نکات موجود ہوں گے اپنے دوستوں یا خاندان میں گفتگو کرتے کرتے آپ کو اس وقت یقینا بہت اچھا لگے گا،جب آپ کسی مصنف کی بات کا،کسی واقعے کا یاکسی کتاب کا حوالہ دیں گے اور آپ محسوس کریں گے کہ مطالعے نے آپ کی سوچ کو کس طرح متاثر کیا ہے لہذا کوشش کیجیے اور مطالعہ شروع کریں کہ عمل مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں۔
اس سلسلے میں والدین پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو خود اس طرف راغب کریں بلا شبہ کتابیں انسان کی شخصیت بنانے میں اہم کردار اداکرتی ہیں لہذا انہیں ڈانٹنے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کریں ان سے گفتگو کریں یہ جاننے کی کوشش کریں کہ انہیں کس طرح کے موضوعات پسند ہیں،وہ کیا جانناچاہتے ہیں،کیا پڑھنا چاہتے ہیں جس طرح کی معلومات انہیں مل رہی ہیں ،کیا وہ ان کے لیے کافی اور مناسب ہیں اور اس سے پہلے کہ وہ رہنمائی نہ ہونے کی بنا پر برے ادب کی طرف متوجہ ہوں یا چوری چھپے پڑھنا شروع کریں یا غیر صحت مندانہ سرگرمیوں میں دلچسپی لیا شروع کریں آپ خود انہیں معیاری اور مثبت ادب کی طرف لے کر آئیں اور کتاب کی صورت میں انہیں ایک اچھا دوست فراہم کریں،کچھ عرصے بعد
یقینا اس کے مثبت نتائج نظر آنے لگیں گے